قارئین!بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں اور انہیں ایک نہ ایک دن پرائے گھر جانا ہی ہوتا ہے۔ وہ گھر جہاں پر ایک لڑکی جنم لیتی ہے اور عمر کا ایک بڑا حصہ اسی گھر میں رہتے ہوئے انہی طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہوئے گزار دیتی ہے، لہٰذا اس ماحول میں اسے تربیت دی جاتی ہے کہ شادی کے بعد اسے دوسرے گھر میں مختلف طور طریقوں اور اجنبی لوگوں میں کس طرح زندگی گزارنا ہے۔ اسے آگاہ کیا جاتا ہے کہ سسرال میں جاکر سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں۔ ان کی باتوں اور طور طریقوں کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ کسی بات کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا ہوگا۔اگرکوئی لڑکی ان باتوں کو اپنے پلے سے باندھ لیتی ہے تو اس کا گھرجنت کا نمونہ پیش کرتا ہے۔بحیثیت بیٹی اور ایک لڑکی کے میں ان تمام باتوں سے مکمل طور پر متفق ہوں۔ یہ بالکل ٹھیک ہے اور ایک شریف لڑکی اپنے سسرال میں جاکر ایسا ہی کرے گی اور کرتی بھی ہے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ عورت تو ہر لحاظ سے سمجھوتہ کرلے گی لیکن اگر مرد سمجھوتہ نہ کرے تو پھر کیا ہوگا؟ ایک لڑکی کو اپنی بیوی بناکر بھی وہ اس کو بیوی کے حقوق نہ دے تو پھر کیا ہوگا؟ ایک لڑکی جو اس کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر اپنے ماں باپ کو، بہن بھائیوں کو اپنے خاندان کو حتیٰ کہ اس گھر تک کو چھوڑ کر آچکی ہوتی ہے جن کے درمیان اس کی تقریباً آدھی عمر بیتی ہوئی ہوتی ہے۔ ایک لڑکی بیوی بن کر جب اپنے شوہر کے گھر میں آتی ہے تو وہ اپنے شوہر کے ماں باپ، اس کے بہن بھائی، اس کے خاندان اور اس کے گھر سے نباہ کرتی ہے۔ اکثر مشکلات کے وقت وہ قربانیاں بھی دیتی ہے لیکن اگروہ شخص جس کیلئے اس کی بیوی اتنی قربانیاں دے رہی ہے وہ اپنی بیوی کے لیے کسی موقع پر کوئی قربانی نہیں دیتا!! آخر ایسا کیوں؟
میں یہ بھی مانتی ہوں کہ پانچ انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتی‘ ہمارے معاشرے میں بہت سے شوہر ایسے ہیں جو اپنی بیوی اور والدہ دونوں میں برابر کا درجہ رکھتے ہیں‘ بیوی کے حقوق پورے کرتے ہیں اور آپ نے بھی دیکھا اور مشاہدہ کیا ہوگا کہ ان کے گھر واقعی جنت کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ اگر شوہر بیوی کا پورا ساتھ دے اور بیوی کا رویہ شوہر کےساتھ ٹھیک نہ ہو تب بھی گھر کبھی نہیں بستا‘ ساری زندگی روتے ہی گزرتی ہے۔ اسی طرح اگر مر دساری زندگی اپنی بیوی کو قانونی، شرعی اور سماجی ’’حقوق‘‘ نہ دے تو ہم اس کو کیا نام دیں گے اس کا ذمہ دار کسے کہیں گے؟۔حقیقت یہ ہے کہ ایسے حالات ہوں تو نہ صرف اس لڑکی کی بلکہ وہ شخص خود اپنی زندگی بھی تباہ کررہا ہوتا ہے۔ اس طرح سے مرد کی اس حرکت سے صرف دو زندگیوں کو ہی نہیں بلکہ دو خاندان تباہ ہورہے ہوتے ہیں۔ آج کل ہمارے معاشرے میں طلاق کا تناسب بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس صورتحال کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ بعض مرد، عورت کی ذات اور اس کے مفاد کے پیش نظر کوئی قربانی یا سمجھوتہ نہیں کرتے۔مجھے یقین ہے کہ جس طرح ایک لڑکی بیوی بن کر، اپنے شوہر اور اس سے منسلک تمام رشتوں پر جس طرح اپنی زندگی ، خواہشات اور امنگوں کو قربان کردیتی ہے اگر مردیعنی شوہر صرف بیوی کے لیے اپنی خواہشات اور انا کی تھوڑی سی قربانی دینا سیکھ لے تو گھر مثالی جنت بن سکتا ہے اور آنے والی نسلیں بھی ترقی کرسکتی ہیں کیونکہ میاں بیوی کے روئیے اور ان کی باہمی ہم آہنگی ہی مثالی خاندان کو جنم دیتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں